قلم اس کی انگلیوں میں دبے دبےبرف کے ٹکڑے جتنا ٹھنڈا ہو چکا تھا_میز پر رکھا ھوا خط چاروں طرف سے حملہ آور ہوتی برفانی ہواؤں سے پھرپھڑا رہا تھا_لیکن تاحال اس کے ہاتھ کے نیچے دبا ھوا تھا_خط وہ مکمّل کر چکا تھا بس نیچے نام لکھنا باقی رہ گیا تھا_اور وہ سوچ رہا تھا کیا لکھے اور کیسے لکھے_''فقط تمہارا دوست سکندر بخت'' کتنے آسان الفاظ تھے جو اسے تحریر کرنے تھے اور اسے یہ چند حروف لکھنا دنیا کا مشکل ترین کام لگ رہا تھا_
''دنیا سے تو ذلیل ہوتے آئے ہیں لیکن اپنا تمسخر آپ اڑانا _کیا مشکل کام ہے سکندر بخت_ وہ رکھنے والے نے کیا نام رکھا ہے'ایسا نام جسے ضابطہ تحریر میں لانا عذاب ہو جائے_ساری دنیا ہنستی'مضحکہ اڑاتی محسوس ہو_ماں_کوئی بھلا سا نام رکھا ہوتا_سیاہ بخت' بدبخت یا پھر کمبخت_کم از کم اسم با مسمی تو ہوتے_یہ سکندر بخت لکھنا تو بڑا مشکل کام ٹھرا ہے _ بدن کا سارا خوں شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے اور ہر رگ سے یہ پانی آنکھوں کی سمت رواں ہو جاتا ہے_کانوں میں ہنسی کی'تمسخر سے بھرپور سیٹیوں کی اتنی آوازیں گونجتی ہیں کہ دماغ کی رگیں درد کرنے لگتی ہیں_پھٹنے لگتی ہیں اور اس شور میں صرف سنائی دیتا ہے 'سیاہ بخت' بدبخت _ کمبخت''
''سکندر بھائی آپ سوئے نہیں ؟''
دروازہ کھول کر حسنہ باہر آئی تھی'برابر کے صحن سے آتی ملگجی روشنی میں اسے کچھ پڑھتا دیکھ کر وہ ٹھٹکی تھی'اس کے پاس کہنے کے لئے کچھ بھی نہ تھا سو وہ خاموش بیٹھا رہا_
''توبہ _ توبہ_ کتنی سردی ہے_'' وہ خود سے ٹکراتی ہواؤں سے بچنے کی کوشش کرتے ہے بولی _
''مر جایئں گی سکندر بھائی! سو جایئں اب جا کر'اماں نے دیکھ لیا تو پندو نصائح کا رجسٹر کھول لیں گی رات کے دو بجے بھی_''
پٹر پٹر کرتی وہ واپس چلی گئ_
اس نے لکھی ہوئی تحریر کو ایک نظر دیکھا _بند کر کے لفافے میں رکھا اور اٹھ کر صحن سے متصل برآمدے میں آ گیا ' جہاں ایک کونے میں اس کا بستر لگا ھوا تھا_صحن اور برآمدے کے درمیاں جو چق لگی ہوئی تھی وہ کافی شکستہ اور بوسیدہ تھی اور کڑکتی سردیوں میں ہوائیں بلاتکلف اندر داخل ہو جایا کرتی تھیں_سکندر کو سردیاں سخت ناپسند تھیں_سردیوں کا آغاز ہوتے ہی چچی صندوق سے اس کا وہی سالخوردہ زخمی لحاف نکلوا کر چھت پر ڈلوا دیا کرتی تھیں'تاکہ اس کی بو مر جائے_لیکن وہ بدبو اس لحاف میں کچھ یونہی نہیں پیدا ہوئی تھی_کئی سال کی ریاضت کے بعد اسے روئی پر اس قدر تصرف حاصل ھوا تھا کہ وہ اس کے ریشے ریشے میں بس سکتی تھی_بھلا چند دن مرجھائی ہوئی دھوپ میں پڑے رہنے سے اس بو کا کیا بگڑ سکتا تھا اور بات محض اس بدبو کی ہی نہیں تھی بات ان ہزار شگافوں کی بھی تھی 'جو ایک ایک کر کے اس کہن زدہ لحاف کے جسم پر نمودار ہو چکے تھے _ہوا کی برچھیاں ان شگافوں سے گھستیں اور سکندر کے بدن کو چھید ڈالنے کے درپے ہو جایا کرتیں_اس کی ساری رات کروٹ بدلتے'لحاف کو ڈبل'ٹرپل کر کے اوڑھنے اور جسم کو مکمّل طور پر ڈھکنے کی کوشش کرنے میں صرف ہوتی اور صبح اس کا عضو عضو اکڑن اور درد محسوس کرتا تھا_
ماہا ملک کے ناول "خدا وہ وقت نہ لائے " سے اقتباس
0 comments:
Post a Comment